بلوچستان کے ایک معروف مصنف کی "گمشدگی" پر اہلِ پاکستان کا شدید ردعمل حیرت انگیز رہا ـ قبل ازیں وہ بلوچوں کی جبری گمشدگی پر چپ سادھ لیتے تھے ـ پاکستانی انٹیلیجنشیا بھی عموماً کنی کترا کر نکلنے میں ہی عافیت دیکھتی تھی ـ
جدید بلوچ سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے عوامی رہنما بلاشک و شبہ چیئرمین غلام محمد بلوچ تھے ـ وہ عدالت کے احاطے سے جبراً گمشدہ کئے گئے اور چند روز بعد مسخ لاش کی صورت بازیاب ہوئے ـ ان کی شہادت/قتل پر بلوچستان میں وسیع ردعمل آیا ـ ردعمل کی شدت نواب بگٹی کی شہادت سے دگنا رہی مگر اہلِ پاکستان بشمول انٹیلیجنشیا لاتعلق رہی ـ
پروفیسر صبا دشتیاری جیسے عوامی دانش ور کا ہدفی قتل ہو یا ہر دلعزیز بانک کریمہ بلوچ کی شہادت؛ پاکستان نے ردعمل سے گریز کا رویہ اختیار کئے رکھا ـ
پہلی دفعہ چشمِ فلک نے دیکھا کہ ایک بلوچ مصنف کی "گمشدگی" کے خلاف ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹنوں کے حساب سے ردعمل آیا ـ یہ اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کہ اس "گمشدگی" سے بلوچستان تقریباً تقریباً لاتعلق رہا ـ گویا جسے بلوچستان نے مسترد کیا اسے پاکستانیوں نے اپنا لیا ـ خود مصنف نے بھی اپنی "بازیابی" کے بعد اپنے الطافی و عمرانی طرز کے ویڈیو خطاب میں فرمایا "مجھے خوشی ہے کہ مجھے سب سے زیادہ حمایت اپنے دوسرے گھر پنجاب سے ملی" ـ
ایک معروف رائٹ اسٹ مصنف جناب عامر خاکوانی سے میں نے پوچھا حضور پنجاب کو ہمارے اس مصنف میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ ـ فرمایا؛ پنجاب بالخصوص لاہور کا دل کشادہ ہے ـ میں نے بڑے دکھ سے کہا :
"پنجاب نے پہلی دفعہ ہمیں اپنی کشادگی دکھائی مگر افسوس غلط آدمی اور غلط واقعے پر دکھائی" ـ
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر خاکوانی صاحب انباکس سے جا چکے تھے ـ میں کہنا چاہتا تھا
حضور یہ پنجاب کے کشادہ دل فکری اذہان ہمیشہ غلط آدمی پر ہی سرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں؟ ـ
پوچھنا تھا؛
"پڑھا لکھا" پنجاب ہمیشہ "پسماندہ" بلوچستان سے دو قدم پیچھے کیوں رہتا ہے؟ ـ
یہ سوالات مگر میں پوچھ نہ سکا ـ گر پوچھتا بھی تو انہوں نے کونسا مطمئن کرنا تھا ـ
بہرکیف؛ کشادہ دل پاکستانیوں نے نو مارچ کے بعد جس پرمہر ردعمل کا مظاہرہ کیا وہ بلوچ تاریخ میں ایک دلچسپ و عجیب واقعے کی صورت ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ـ
پاکستانی واقعی کمال کرتے ہیں
0 Comments