بلوچ مزاحمتی تحریک نئے ممکنات کیجانب
دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ
تحریر: باہوٹ بلوچ
سال 2022 نے بلوچ آزادی کی تحریک کے مختلف پہلووں کو اجاگر کیا۔ جہاں بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے اہم کامیاب کاروائیاں دیکھنے میں آئیں، وہیں انہیں جانی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہ امر نظرانداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ بلوچ مزاحمت نئے ممکنات کی طرف بڑھ رہی ہے۔
امسال بلوچ آزادی پسندوں کیجانب سے پانچ بڑی نوعیت کے حملے کیئے گئے، جن میں سے تین حملوں کو نئے ابواب کا آغاز کہا جاسکتا ہے جبکہ ان حملوں کے پیش نظر پاکستانی افواج و اداروں کو نئی صف بندیوں کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کے نقوش مستقبل قریب میں مزید واضح ہوتے دکھائی دینگے۔ یہاں بلوچ مزاحمتی تنظیموں کیلئے کئی سوالات و امتحانات دستک دے رہے ہیں کہ کیا وہ اس شدت کو برقرار رکھ پائینگے؟ کیا وہ خطے میں بدلتی حالات و عالمی مفادات کے بیچ خود کو منواپائینگے؟
شدید نوعیت کے حملوں پر ایک نظر:
پاکستان کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر پہچانے جانے والے شہر کراچی میں 26 اپریل 2022 کو بارود سے بھری بیگ کیساتھ ایک فدائی حملہ آور نے چائنیز شہریوں کو نشانہ بنایا، دھماکے کے نتیجے میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے تین چینی اساتذہ سمیت 4 افراد ہلاک و فورسز اہلکاروں سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔
یہ کاروائی شاری بلوچ عرف برمش نے سرانجام دی تھی، جس کی تصدیق بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے کی۔ جیئند بلوچ نے مزید کہا کہ “شاری بلوچ نے خود کو قربان کرکے، بلوچ مزاحمت میں ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پہلی بلوچ خاتون فدائی ہونے کا اعلیٰ درجہ حاصل کرلیا اور رہتی تاریخ میں امر ہوگئیں۔”
کراچی حملے سے قبل 25 جنوری کو ضلع کیچ کے تحصیل دشت میں سبدان کے مقام پر بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں (بلوچ جنگجووں) نے پاکستان فوج کے ایک مرکزی کیمپ پر حملہ کیا۔ حملہ کم از کم تین گھنٹے تک جاری رہا، جس میں بلوچ آزادی پسندوں نے کامیابی حاصل کرتے ہوئے کیمپ پر قبضہ کرلیا جبکہ حملے میں 9 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے، ہلاک اہلکاروں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تھا۔ جبکہ حملے میں بی ایل ایف کو اپنے ایک سرمچار بالاچ کی صورت میں جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
سبدان طرز کے حملے اس سے قبل بلوچ لبریشن آرمی کیجانب سے بولان و بلوچ مسلح تنظیموں کے بڑے اتحاد “براس” کیجانب سے کیچ و مکران میں ہوئیں، یہ بات خارج از امکان نہیں کہ بلوچ مسلح تنظیموں کے اتحاد براس نے جنگجووں کی کاروائیوں کیلئے نئی راہ ہموار کی ہے، جس نے انہیں شدید نوعیت کے حملوں کی طریقہ کار سمیت اہمیت سے متعارف کروایا۔
ماضی قریب میں بی ایل اے کیجانب سے 2018 میں ہرنائی کے علاقے نشپا سے شروع ہونے والی فورسز کے کیمپوں پر قبضے سے لیکر بولان میں جھالاوان تنک، کاہان اور مارواڑ حملوں نے بلوچ جنجگووں کو اس نوعیت کے حملوں کیلئے اکسانے و اپنانے کا کام کیا۔ اس سے قبل فورسز کیمپوں پر قبضے کرنے کی کاروائیوں کی تاریخ و تعداد مختصر رہی ہے جس کی ایک مثال بی ایل اے کے سابق سربراہ جنرل اسلم بلوچ کی قیادت میں 2011 میں بولان کے علاقے مارگٹ میں دیکھنے میں آتی ہے، جہاں پاکستان فوج کے مرکزی کیمپ کے مختلف پوسٹوں پر بیک وقت حملہ کرکے قبضہ کیا گیا تھا اور ساتھ ہی کوئٹہ سے آنے والی کمک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
رواں سال سب سے شدید و پیچیدہ نوعیت کے حملے بیک وقت نوشکی و پنجگور میں کیے گئے، جن میں بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے 16 فدائین نے حصہ لیا تھا، اس طرح یہ بی ایل اے مجید بریگیڈ کا بھی بہ لحاظ تعداد سب سے بڑا حملہ تھا۔ بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے اس بارے میں کہا کہ ” آپریشن گنجل (نوشکی وپنجگور حملوں) کا بنیادی مقصد نا صرف قابض پاکستان بلکہ پوری دنیا کے سامنے یہ واضح کرنا تھا کہ بلوچ تحریک کس شدت کے حملے کرنے کی استطاعت رکھتی ہے۔ آپریشن گنجل اس امر کا اظہار ہے کہ آج بلوچ نوجوان حصول آزادی کیلئے کس انتہا تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔”
اسی شدت کو برقرار رکھتے ہوئے محض دو مہینے کے دورانیہ میں بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کے فدائی شاری بلوچ نے کراچی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ارکان کو حملے میں نشانہ بنایا۔ مذکورہ حملے نے نہ صرف اپنے اہداف حاصل کیئے بلکہ ایک نئے بحث کا آغاز بھی کیا۔ اس حملے سے بلوچستان میں بذریعہ پاکستان چینی مفادات کو ایک دھچکا لگا جس کے ردعمل میں چینی حکام نے پاکستان پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے اپنے فوجی اہلکار تعینات کرنے کے نقطے پر بھی غور کیا۔
بلوچ آزادی پسندوں نے اپنے طریقہ کار میں تبدیلیاں لائیں، جس میں ٹارگٹ کے منتخب کرنے و مختلف یونٹس کی جانب سے کاروائی سرانجام دینا شامل ہے۔ اس تبدیلی کا اظہار زیارت سے پاکستان فوج کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ کی گرفتاری کے طور پر کی گئی۔ بلوچستان کے شہر زیارت کے قریب رواں ماہ 13 اور 14 جولائی کی درمیانی شب ڈی ایچ اے کوئٹہ کے سینیئر افسر لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا اور ان کے چچا زاد بھائی عمر جاوید کو مسلح افراد شناخت کے بعد اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔
واقعہ کے بعد پاکستان فوج نے علاقے میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا تاہم وہ مغویوں کے بازیابی میں ناکام رہیں، جبکہ بعدازاں مختلف اوقات میں دونوں افراد کی لاشیں ملیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نےاس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے کی اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ ( ایس ٹی او ایس) نے ایک خفیہ اطلاع پر زیارت کے قریب آپریشن کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ایک حاضر سروس اعلیٰ افسر، کرنل لئیق بیگ مرزا کو حراست میں لے لیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا، بلوچ لبریشن آرمی کے ایک اہم ہدف تھے اور گذشتہ کئی دنوں سے بی ایل اے کی انٹیلی جنس یونٹ ان پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ 12 جولائی کو دن بھر انکا تعاقب کیا گیا اور آخر کار انہیں ایک ایسے علاقے میں گرفتار کیا گیا، جہاں عوام کے لیے خطرہ کم سے کم تھا۔ جیئند بلوچ نے کہا کہ “کرنل لئیق بیگ نے اپنے تمام جرائم کا اعتراف کرلیا، جسکی پاداش میں انہیں بلوچ قومی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔ جسکے فوری بعد سزا پر عملدرآمد کیا گیا۔”
اس سے اگلے ہی مہینے اگست میں بلوچ مسلح تنظیموں کے سب سے بڑے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے ضلع لسبیلہ میں پاکستان فوج کے ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کی ذمہ داری قبول کی۔ ہیلی کاپٹر میں سوار پاکستان فوج کے تمام چھ اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں کور کمانڈ ۱۲ کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈاریکٹر جنرل کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد، بریگیڈیئر خالد، پائلٹ میجر سعید، معاون پائلٹ میجر طلحہ اور چیف نائیک مدثر شامل تھیں۔
ایک اور کاروائی بلوچ لبریشن آرمی نے ۲۵ ستمبر کو ہرنائی میں کی جہاں پاکستان فوج کے دو اہلکاروں کو شناخت کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ گرفتار اہلکاروں کیلئے آپریشن میں مصروف ہیلی کاپٹر کو بلوچ جنگجووں نے مار گرایا جس میں پاکستان فوج کے دو پائلٹوں سمیت چھ اہلکار مارے گئے۔
جبکہ سال کے آخری ایام میں دو روز کے دوران کم از کم ۱۸ مختلف نوعیت کے حملے کیے گئے جن کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ مذکورہ حملے بلوچ لبریشن آرمی کے سابق سربراہ جنرل اسلم بلوچ کے برسی کے موقع پر دیکھنے میں آئیں۔ ان حملوں میں بی ایل اے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ (ایس ٹی او ایس) کی تربت و کاہان میں حملے نمایاں رہیں جن میں پاکستان فوج کے ایک کیپٹن و کمیشنڈ آفسر سمیت ۹ اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق حکام نے کی۔
تبدیلی سے حاصلات:
بلوچ مزاحمتی تنظیموں کی پالیسی میں ایک واضح تبدیلی نظر آرہی ہے جس میں شدید نوعیت کے حملوں کیساتھ دیگر نقاط بھی غور طلب ہیں۔ بلوچ مسلح تنظیموں نے جہاں حملوں کے باعث عالمی میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کیا وہیں سوشل میڈیا و دیگر ذرائع سے اپنے پیغام کو واضح انداز میں دنیا تک پہنچایا۔
بی بی سی نے ایک رپورٹ دی کہ نوشکی و پنجگور حملوں کے وقت “جب مقامی لوگوں اور افسران سے نہ کوئی معلومات مل رہی تھیں اور رابطہ کرنا مشکل ہو رہا تھا، وہیں بی ایل اے اپنے ٹیلی گرام چینل کے ذریعے ویڈیو، آڈیو اور پریس ریلیز کی شکل میں مسلسل معلومات شیئر کر رہی تھی۔ اور ہم نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں یہ معلومات سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگی۔ سرکاری اور مستند میڈیا کی جانب سے معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بی ایل اے کا بیانیہ سوشل میڈیا پر زیادہ پھیلنے لگا۔”
بی بی سی نے مزید لکھا کہ “بی ایل اے کی جانب سے یہ معلومات تین زبانوں انگریزی، بلوچی اور اردو میں جاری کی جا رہی تھیں۔ اس کے علاوہ حملہ آوروں کی تعداد، نام اور تصاویر کے ساتھ ساتھ ’آپریشن گنجل‘ کہلائے جانے والے حملے کی مکمل تفصیلات بھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔”
اسی نوعیت کی طریقہ کار بی ایل اے نے کراچی میں ہونے والے فدائی حملے کے وقت بھی اپنائی جہاں شاری بلوچ کی تصاویر کے ساتھ اس کے ویڈیو و آڈیو پیغامات سمیت ان سے منسوب نغمے بھی شئر کیے گئے۔
بلوچ مسلح تنظیموں کیجانب سے پاکستان فوج پر کیے جانے والے متعدد حملوں کے ویڈیو اس سال شائع کی گئیں ہیں۔ ان ویڈیوز میں بعض حملوں کی تصدیق یا تردید پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے نہیں آیا ہوا تھا، تاہم بلوچ مسلح تنظیموں کے شائع کردہ ویڈیوز نے آئی ایس پی آر کے موقف کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔
علاوہ ازیں مذکورہ تنظیمیں لٹریچر پر بھی توجہ دے رہی ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کی گائیڈ بُک “چیدہ” قابل ذکر ہے جبکہ بی ایل اے ہی کیجانب سے پچھلے سال کی طرح اس سال مزید دو تربیتی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔
مزید برآں بلوچ مسلح تنظیموں کی کاروائیوں میں ان کے ذیلی یونٹس کے نقوش ظاہر ہوئیں، جن میں میڈیا کے علاوہ خفیہ معلومات پر کاروائیاں ان کی “انٹیلی جنس یونٹ” و “ایلیٹ فورسز” پر متوجہ کرتی ہے۔ جن کاروائیوں سے ظاہر ہوتی ہے کہ مسقبل قریب میں یہ “ایلیٹ فورسز” مزید ابھر کر سامنے آسکتی ہیں۔
دوسری جانب نقصانات:
سال ۲۰۲۲ میں نقصانات کے حوالے سے بلوچ مسلح تنظیموں کیلئے “بلوچ نیشنلسٹ آرمی” کے سربراہ گلزار امام عرف شمبے کے حراست میں لینے و پاکستان منتقلی کی خبر نمایاں رہیں۔ گوکہ عالمی منظر نامے پر کسی تحریک کے فعال رکن کی گرفتاری کے کئی واقعات ملتے ہیں لیکن حالیہ بلوچ تحریک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
البتہ سیکیورٹی ماہرین اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے وابستہ حلقوں کا کہنا ہے کہ گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچ مسلح تحریک پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔
سنگاپور میں قائم ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز نامی سیکیورٹی تھنک ٹینک سے وابستہ محقق عبدالباسط کہتے ہیں کہ مسلح تنظیموں کے لیے اہم کمانڈرز کی ہلاکت یا گرفتاریاں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچستان میں بی این اے کے نیٹ ورک کو تو دھچکا لگا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس سے بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچے گا۔ اُنہوں نے 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے ماسٹر مائنڈ اسلم بلوچ کے مارے جانے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے اسلم بلوچ کے جانشین بشیر زیب کی قیادت میں مزید منظم ہوا۔
قبل ازیں گلزار امام کی گرفتاری و خبر کے سامنے آنے کے، ان ہی کے تنظیم کے کم از کم ۳۵ بلوچ جنجگو مختلف علاقوں میں آپریشنوں کے دوران مارے گئے جن میں پاکستان فوج کی جانب سے ڈرون حملوں کا استعمال قابل ذکر ہے۔ مذکورہ تنظیم کے علاوہ دیگر بلوچ جنجگووں پر بھی ڈرون حملوں کا استعمال کیا گیا جن میں انہیں جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
اختتامیہ:
بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے فورسز کیمپوں و ہیڈکوارٹرز پر قبضہ، ہیلی کاپٹر مارگرانے، حاضر سروس فوجی اعلیٰ آفیسران کا حراست میں لینا اور خاتون حملہ آوروں کی شمولیت اس جنگ کی تپش کو مزید بڑھانے کا عندیہ دے رہی ہے، جس سے بلوچستان میں جاری جنگ کی صورتحال مزید بدلنے کے امکانات نظر آرہے ہیں جبکہ پاکستان فوج کا ڈرون حملوں سے لیکر بڑے پیمانے پر آپریشنوں کا آغاز اور چینی حکام کیساتھ ملکر ٹیکنالوجی کے ذریعے بلخصوص بلوچ جنگجووں کو زیر کرنے کی کاروائیاں ظاہر کررہی ہیں کہ بلوچستان میں اب کوئی ‘نچلی سطح کی مزاحمت’ نہیں بلکہ ایک ‘مکمل جنگ’ چھڑ چکی ہے جس کا اظہار بلوچ رہنماء بھی کرتے رہے ہیں۔
گوکہ حالیہ مہینوں بلوچ مسلح جنگجووں نے پاکستان فوج کے گرفتار اہلکاروں کے بدلے قیدیوں کے تبادلے کا اظہارکیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بلوچ مسلح تنظیم نے “فوج کے مکمل انخلاء” کے موقف کے بغیر کسی نقطے پر گفت و شنید پر آمادگی کا اظہار کیا ہو، تاہم پاکستانی فوج کیجانب سے طاقت کے استعمال کو ہی ترجیح دی گئی۔
دونوں فریقوں کا موقف ہے کہ انتہاء ہی سے اختتام حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس سے بلوچستان میں مزید خونریزی میں اضافہ ہوگا شاید اس کے چھینٹے اسلام آباد کے در و دیوار تک لگیں۔
0 Comments