لُمّہ ۔۔۔ گوہر ملک /شاہ محمد مری
آج بچے ایسے خوش ہیں جیسے بہت بڑا خزانہ اُن کے ہاتھ لگا ہو۔ لمہ بانل کیا آئی سمجھو عید کا چاند نظر آگیا۔ بانل نہ تھی تو لگتا تھا جہان نہ تھا۔ دوماہ کی دوری نہ ہوئی جیسے بچوں کے لیے لمہ بانل کو نہ دیکھے دس برس ہوئے ہوں۔ انہوں نے اُس پر ایسے جمگھٹا کیا جیسے مکھیاں شیرہ کے اوپر جمع ہوتی ہیں۔ لمہ بانل نے اپنے نئے بیگ کے اوپر اوپر پلاسٹک کی تھیلی ٹکی ٹافیوں سے بھری رکھی ہوئی تھی۔ وہ ہر ایک بچے کو نام سے پکارتی ہے اور کہتی جاتی ہے کہ ”ہائے میں قربان جاؤں تجھ پہ“ اور ”او میں قربان ہوجاؤں تم پہ“۔وہ چار چار ٹکیاں اس کے ہاتھ میں پکڑا دیتی ہے۔لمہ بانل سارے آس پاس پڑو سیوں کے بچوں کو دعائیں دیتی اور خود کو نذر و قربان کرتی تحفے دیتی رہی۔اُس کے تحفے بالآخر ختم ہوئے۔ لمہ بانل نے تھیلی پھینک دی:”یہ ہے نامراد ختم ہوگئی ہے ورنہ میں تمہیں اور دیتی۔اب جاؤ کھیلو“۔ بچوں نے دیکھا کہ لمہ نے تھیلی پھینک دی تو ان کو یقین آگیا اور وہ دوڑتے ہوئے چلے گئے۔
اب صرف میر جلال کے چاروں بچے بیٹھے تھے۔ شور شرابہ ختم ہوا تو میر جلال کمرے سے باہر نکلا: ”آؤلمہ تمہیں خدا لائے۔ اس بار تم نے کتنی دیر لگادی۔ میں اور بچے سب تمہارے لیے اداس ہوگئے“۔
لمہ بانل ہانپتے کانپتے اٹھ کھڑی ہوئی اور ورد کرنے لگی:”اللہ میں قربان جاؤں اپنے بچے پہ۔میں نذر ہوجاؤں تم پہ لاکھ بار۔ آجا میرے بچے میں تمہیں اپنے دل میں رکھوں“۔اور میر جلال کو گلے لگالیا۔ اسے دعائیں دیں۔ وہ اس قدر پُر جوش تھی کہ خطرہ ہوا کہ خود بھی گرجائے گی اور میر جلال کو بھی اپنے ساتھ گرا دے گی۔میر جلال نے خود کو لمہ کے ہاتھ سے چھڑا لیا اور اُسے آہستہ آہستہ زمین پر بٹھا دیا ”لمہ پیاری بس کر، تم خود تھک چکی ہو“۔”میں خیرات ہوجاؤں تم پہ۔ میں نہیں تھکی۔ تمہیں اور بچوں کو دیکھ لیا میری ساری تھکاوٹ دور ہوگئی“۔
”لمہ تمہاری بہن اور خاندان سب خیریت سے ہیں؟“۔
”سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔ تمہیں سلام کہا ہے تمہاری کنیزوں اور غلاموں نے“۔
”وعلیکم۔ لمہ اچھا ہوا کہ تم آگئیں۔ سارے بچے تمہیں یاد کرتے رہے۔ تمہارے بغیر گھر بدصورت ہے“۔
”گھر کی خوبصورتی تو تم ہو۔ اللہ تمہاری جگہ مجھے اٹھالے“۔ پھر لمہ نے بچوں کی طرف رخ کیا۔ پھر ماہل جھاڑو لے کر آئی۔ دروازے پر مٹی میں جھاڑو لگانے لگی جو کہ بچوں کے پیروں کے ساتھ آئی تھی جو کہ مٹھائی اور ٹافی لینے لمہ بانل کے پاس آئے تھے اور کہا ”لمہ دیکھو گز کے گوئن کی مٹھائی کے لیے میں نے پیغام بھیجے تھے“۔ماہل نے لمہ کے تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور کہا ”لمہ میرے لیے کیا لائی ہو؟“۔
دوستین دور سے پکارا۔ ”نہیں لمہ گوئن کی بنی مٹھائی میری ہے“۔ شادین نے اپنی چیزیں پھینک دیں اور دوڑا ہوا آیا ”لمہ میری چاولی چوولی کہاں ہے؟“ اور وہ لمہ کے تھیلے کو اکھیڑنے لگا۔ ماہل نے شادین کا ہاتھ پکڑا اور یہ کہہ کر کھینچتی رہی کہ تم لوگوں نے لمہ کو تنگ کر رکھا ہے۔
”میری بچی‘ میری بہن اور بھانجو میری خوشی تم لوگ ہو۔ چھوڑو بھائی کا ہاتھ۔ اس کا نازک ہاتھ دکھ جائے گا۔ آؤ میں تم لوگوں کے لیے اچھی چیزیں لائی ہوں۔ گز کا شیرہ اور چاولی کیا بلا ہے؟۔ اس نے تھیلی کا منہ کھولا۔ایرانی ٹافیوں کی ڈبیاں نکالیں:”دیکھو میں تم لوگوں کے لیے کیسی اچھی چیز لائی ہوں؟“۔ ماہل اور شادین تو سمجھو پاگل ہوگئے اور انہوں نے ڈبی پھینک دی:”ہم آگ لگادیں ایسی چیزوں کو۔ یہ تو یہاں بھی بہت ہیں“۔
”ارے میں تم پہ قربان جاؤں“۔ لمہ نے دوبارہ ڈبے اکھٹے کر لیے۔
دوستین نے آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ ماں حویلی کے دروازے سے آرہی ہے۔ وہ یہیں سے پکار اٹھا:”اماں اماں خو شخبری کا انعام میرا، لمہ آگئی“۔ لمہ ہانپتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ماں کو گلے لگایا، چوما۔ جان گل نے بھی لمہ بانل کو دیکھا تو بہت خوش ہوئی۔ سلام دعا کے بعد کہا ”دیکھو جان گل دیکھو۔میں بچوں کے لیے اچھی اچھی چیزیں لائی ہوں، مگر وہ انہیں اچھی نہیں لگیں، انہوں نے وہ سب چیزیں پھینک دیں۔ کہتے ہیں کہ تم ہمارے لیے گوئن کا مغز،گز کا شیرہ،کوٹگ کا چاولی،گوئن کی ساجک کیوں نہیں لائی ہو؟۔ ہم ٹافیاں اور پستہ نہیں لیں گے“۔
اس نے دوبارہ ڈبے بچوں کے سامنے رکھ دیے،”لے لو بچو میں تم لوگوں پہ قربان۔ خاران میں بارشیں نہیں ہوئیں۔ بیج اور چاولی کہاں سے آئیں گے؟۔ گوئن کوے کھا گئے۔ گز لوگوں نے کاٹ کر فروخت کر دیے، یا جلادیے“۔
جان گل نے کہا ”لمہ تم نے خود کو اتنی تکلیف کیوں دی؟۔ بچوں نے جن چیزوں کا پیغام بھیجا تھا وہ لاتیں“۔
”کیا کروں،ہزارانیؔ اور کجور ؔجان نے مجھے نہیں چھوڑا کہ گم کرو یہ مردار چیزیں۔ انہیں اب خاران میں کوئی نہیں کھاتا توشہر میں کون کھائے گا۔ تم بچوں کو یہ مردار چیزیں کیسے کھلاؤ گی۔ یہ ساری چیزیں کجور جاؔن نے خو د خریدیں۔ کجور جان آج کل ماشکیل اور پنجگور آتی جاتی ہے“۔
لمہ بانل اصل میں خاران کی رہنے والی ہے۔ لمہ بانل کی ماں نواب صاحب (نواب خاران)نے میر جلال کے دادا کو بخش دی تھی۔ بانل کی ماں نے اپنی زندگی میر جلال کے باپ دادا کے گھر میں روٹیاں پکانے اور پانی ڈھونے میں گزاری۔ بانل جب بڑی ہوگئی تو میر جلال کے باپ نے اپنی بیٹی کے بطور اسے ایک اچھے آدمی سے بیاہ دیا تھا۔ مگر، بدقسمتی سے اولاد نہ ہوئی۔ چار سال بعد اُس آدمی نے دوسری شادی کر لی۔ بانل نے سوچا کہ مولد (غلام عورت) کے بچے پالنے سے بہتر ہے کہ واپس جا کر اپنے مالک کے بچے پالوں۔چنانچہ اس نے میر جلال خان کے بچوں کو اپنی گود میں پال کر بڑا کیا۔ میر جلال خان اور اس کے بچے بانل کو لمہ (ماں) کہتی ہیں۔ بانُل کی ماں سے جدا ایک بہن ہزاری ؔخاران میں رہتی ہے۔ سال دو سال بعد اُس سے ملنے جاتی ہے۔ ایک آدھ ماہ وہاں گزارتی ہے۔ مگر اس بار تو اس نے پورے دو ماہ لگادیے تھے۔ کجورؔ جان ہزاری ؔکا نواسہ ہے۔
اب لمہ بانل کام کاج کی نہیں رہی۔ میر جلال اور جان گل اُسے اپنی ماں کے بطور دیکھتے ہیں اور عزت کرتے ہیں۔ اس کا کام کیا ہے؟۔ اِس بچے کے بوٹ پہنادے گی اور اُس کی جرابیں اتارے گی۔ یا پھر بچوں کے لیے سچی جھوٹی کہانیاں گھڑلے گی۔
وہ اپنی ہر کہانی کو کتابی کہانی کہتی ہے۔ رات ہو یا دن جس وقت بھی بچے کہتے کہ لمہ کہانی سناؤ تو وہ کہانی شروع کردیتی۔ بچوں کی بات کبھی نہیں ٹالتی۔ کہتی ہے بچوں کا دل توڑنا گناہ ہے۔ آج بچوں نے پھر کہا کہ لمہ کہانی سناؤ۔ اس نے کہا کہ کونسی کہانی سنو گے، کتابی یا دنیاوی؟۔ بچے چیخ وپکار کرنے لگے۔ ایک نے کہا دنیاوی دوسرے نے کہا کتابی۔ ”اچھا اچھا، کتابی کہانی سناؤں گی۔ بچو تم لوگوں نے گوح دیکھا؟۔
”ہاں“ بچوں نے یک زبان ہوکر کہا۔ کل لالو نے کھیتوں میں ایک ماردیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں مہندی کیے ہوئے تھے“۔
”بچو یہ گوح پہلے ہماری تمہاری طرح انسان تھی۔ بی بی کے قربان جاؤں یہ اُن کی لونڈی تھی۔ بی بی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہاتھ پاؤں مہندی تھے۔ بی بی نے کہا جاؤ مشک پانی سے بھر کر لاؤ۔وہ اٹھی اور مشک اٹھا کر گھر کے پچھواڑے گئی۔ مشک کو پھونک مار مار کر ہوا سے بھر دیا اور لا کر رکھ دیا۔اور خو داپنے خاوند کے پاس چلی گئی۔
”بی بی کے قربان جاؤں، انہیں پیاس لگی۔ کٹورا لیا اور پانی پینے مشک کا منہ کھول دیا۔وہاں سے تو صرف ”اُفف“ ہوگیا اور مشک کی ساری ہوا نکل گئی۔”بی بی نے بد دعا کی۔ جاتُو گوح بن جا، اور ہر بوٹی اور جھاڑی کے نیچے ہُپ ہُپ کرتی رہ“۔
ماہل حیران ہوئی اور کہا“ لمہ تو یہ وہی ہے جو ابھی تک زندہ ہے؟۔نہیں نہیں۔ وہ کیسے اتنی دیر تک زندہ رہ سکتی ہے؟۔ یہ اس کی بیٹی، پوتی، پڑپوتی ہوگی۔
”مرد گوح بھی ہوتا ہے؟“۔
شادین نے ماہل کے سر پر چپت ماری:”چپ ہوجا۔ اتنے سوال جواب سے لمہ کو پریشان کردیا“۔ لمہ نے ماہل کے سر کو گود میں لیا۔
ماہل کو بات ہضم نہ ہوئی۔ کہا ”لمہ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں۔ بی بی نے کسی کو بددعا نہ دی۔ وہ تو ہر ایک کے لیے نیک دعا کرتی تھیں۔ میں نے اپنی کتابوں میں پڑھا کہ گوح شروع سے گوح تھی اور بندر شروع سے بندر۔ آپ ہمیشہ قصہ سناتی ہیں کہ پہلے آسمان بہت نیچے ہوا کرتا تھا۔ بڑھیانے اُس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کر اپنے نواسے کا پاخانہ صاف کیاتو آسمان ناراض ہوا اور اوپر چلا گیا۔ تمہارے خیال میں آسمان کپڑا ہے جسے پھاڑا جاسکتا ہے؟“۔
لمہ پریشان ہوئی اور کہا ”تم کیا جانو، بچی ہو۔ ہمارے بڑے بوڑھوں نے ہم سے،اُن کے بڑے بوڑھوں نے اُن سے یہی کچھ کہا کہ یہ کتابی قصے ہیں۔ جو بھی انہیں جھوٹ کہے گا گنہگار ہوگا“۔
دوستین کو لمہ پر پیار آیا، کہا”لمہ تم ماہل کو چھوڑ دو۔ اس نے چار لفظ کیا پڑھے خود کو پتہ نہیں کیا سمجھتی ہے۔ کتابی قصوں کو جھوٹ کہہ کر خود گنہگار ہوگی۔ اسے چھوڑ دو قیامت کے دن اس کے گلے میں رسی ہوگی“۔
”نہ ماہل کو ایسا نہ کہو، میرے ابا۔ اللہ اُسے اپنی امان میں رکھے“۔
شادین اور ماہل ڈر کے مارے یوں خاموش ہوئے کہ بالکل بات نہ نکلتی تھی۔ اس لیے کہ لمہ ہر وقت اُن سے گناہ و ثواب، بہشت و دوزخ کی باتیں کرتی تھی۔
”لمہ یہ بچے تم سے بھی پہلے پیدا ہوئے۔ بہت کچھ جانتے ہیں۔یہ سچ بولتے ہیں“۔ جان گل نے جائے نماز سمیٹ لی اور اوپر دیوار پہ خانے میں رکھ دی۔
لمہ نے ایک سرد آہ نکالی۔ اس طویل زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بچوں نے لمہ کی کہانی کو جھوٹ کہہ دیا۔ لمہ کا حافظہ بہت توانا تھا۔ زمانوں کی کہانیاں ایسے سناتی ہے جیسے کل پرسوں کی بات ہو۔ یوں کہو کہ لمہ میر جلال کے خاندان کی تاریخ کی کیسٹ تھی۔ میر جلال کے گھرانے کا غم خوشی، بچوں کی پیدائش، سروں پہ استرا پھیرنے کی تاریخ،دانت نکلنے، دانت ٹوٹنے، چلنے پھرنے لگنے، بچوں کو مسلمان کرنے کی ساری باتیں آپ لمہ کی ڈائری سے سنیں۔
ایک روز خدا جانے دوستین کے من میں کیا آیا پوچھا ”لمہ آپ کی عمر کیا ہے“۔”مجھے کیا پتہ؟۔ 20ہوگی یا 30 برس یا 40یا پتہ نہیں“۔ دوستین حیران تھا۔ ”لمہ خدا سے ڈرو۔ میرے والد کی عمر 50سال ہے“۔
”نہیں نہیں بیٹا جس نے تمہیں بتایا غلط بتایا“۔
”میرے دادا نے خود لکھا“۔
”قربان جاؤں تمہارے دادا کے ۔ پھر، اس نے غلط لکھا ہوگا“۔
اچھی خاصی دیر تک خاموشی رہی۔ پھر کہنے لگی”تمہارے باپ کی پیدائش مجھے اس قدر صاف یاد ہے جیسے کل پرسوں کی بات ہو۔ میں نے خود گیلن پانی سے بھرا اور گھر کے چاروں طرف چھڑ کاؤ کیا۔ پھر میں واجہ (تمہارے دادا)کے پاس گئی، خوشخبری کا انعام لیا۔ واجہ نے مجھے دو روپے دیے۔ میں اس قدر خوش ہو ئی تھی کہ مت پوچھو“۔
”اللہ،لمہ تم دو روپے پہ خوش ہوئیں؟“۔
”یہ تمہارے بدبخت بے کرامت کاغذ نہ تھے، انگریز کے کلدار تھے۔ اُس وقت بیٹے کی خوشخبری کا ایک کلدار اور بیٹی کی خوش خبری کے آٹھ آنے ہوتے تھے“۔
”بیٹی بے چاری کے کیوں کم تھے؟“۔ ماہل نے پوچھا۔
”بس لڑکے کے خدا نے زیادہ کر رکھے ہیں“۔
”لمہ آپ نہیں جانتیں کہ جنت ماں کے پیروں تلے ہے۔ بیٹیاں زیادہ محترم ہیں“۔
دوستین نے اپنی چیل دکھا دی:”عورت مرد کے پاؤں کی چپل ہوتی ہے“۔
ماہل اپنی جگہ سے تیز تیز اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بھائی کے سامنے ہاتھ ہلاہلا کر کہنے لگی:”ہاں ہاں۔ واجہ مگر اب وہ زمانہ نہیں۔ مرد اور عورت برابر ہیں، گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ تم لوگوں نے ہمیں بہت دھکے دیے مگر اب ایسا نہیں ہوگا“۔
لمہ کہنے لگی:”بس بس تم لوگوں نے لُمّہ کا قصہ غائب کردیا۔ لمہ کو آگ لگا دو، لمہ کو خدا لے جائے۔ دوستین جان تم لوگوں کا بھائی ہے۔ اسے خدا نے تم لوگوں سے زیادہ کردیا۔۔۔“۔
0 Comments